Article

 

 

ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستانی مدر ٹریسا

تحریر:فزا ملک:

پاکستانی تاریخ میں بہت سی ایسی شاندار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے خدمت انسانی کے جذبے کے تحت اپنی ساری زندگی گزار دی

ڈاکٹر روتھ فاﺅ اُن ہی میں سے ایک ہیں اور پاکستان کیلئے اپنی قابل رشک خدمات کی بدولت وہ پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں

ڈاکٹر روتھ فاﺅ بنیادی طورایک جرمن خاتون تھیں وہ 1960ءکی دہائی میں پاکستان ایک” ایجوکیشنل کیتھولک کونگریشن“ کے سلسلے میں آئیں اُن کا دوسرا پڑاﺅ بھارت تھا لیکن پھر وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں اور اپنی زندگی کے 55سال پاکستان میں جذام کی بیماری کو ختم کرنے کے لئے قربان کردیئے اگر آپ گوگل پر” Leprocy in Pakistan“لکھ کر سرچ کریں تو ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا نام ہی آپ کی کمپیوٹر سکرین پراُبھرے گا

جزام کو دوسرے الفاظ میں’ کوڑھ ‘کہا جاتا ہے جو عام طور پر چوہے کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور جس میں مریض کے ہاتھ پیر مکمل طور پر ادھ مرے اور بے حس ہو جاتے ہیں

ٍڈاکٹر روتھ فاﺅ ایک ایسی رحمدل اور صوفیانہ صفت عورت کا نام ہے جس نے پاکستان میں اُس وقت جزام کے مریضوں کی خدمت اور علاج کا بیڑا اُٹھایا جب اسے لوگ بیماری نہیں بلکہ سرکردہ گناہوں کی سزا سمجھتے تھے اور ان ہی گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے انہیں خاندان سے دور ویرانوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا ، اُن کے لئے پہلا چیلنج اس فرسودہ تصور کا خاتمہ تھااور اس بیماری کو بیماری ثابت کرنے کیلئے ڈاکٹر روتھ کو بہت وقت لگا

انہوں نے کراچی کے ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر ، جو جزام کے مریضوں کا ٹھکانہ تھا وہاں اپنا ہیلتھ کیمپ لگایا

یہ فرشتہ صفت عورت خود اپنے ہاتھوں سے اُن کوڑھ کے مریضوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں جن کو اُن کے اپنے تنہا چھوڑ گئے تھے

 ڈاکٹر روتھ کا کیمپ پہلے کلینک اور پھر باقاعدہ طور پر 1963ءمیں ایک ہسپتال کی صورت اختیار کرگیا جس کا نام ” میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر“ رکھا گیا اور آج تک اس ہسپتال میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ایک ہزار پیرا میڈیکل ورکرز کو ٹریننگ بھی دی گئی تاکہ ان کے بعد بھی جزام کے مریضوں کا علاج ہو سکے

اپنے اس مشن کے آغاز میں ہی ڈاکٹر روتھ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ صرف وہ لوگ ہی ان کے سنٹر میں علاج کے لئے آسکیں گے جنہیں سنٹر قریب پڑتا ہو چنانچہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان تمام متاثرہ اور دوردرازعلاقوں کا سفر شروع کیا جہاں جزام کے مریض تھے اور ان کی بر وقت طبی امداد کو یقینی بنایا

اوریہ ان کی انتھک محنت ہی تھی جو سال 1996ء میں ” ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ نے پاکستا ن کو ” لیپروسی کنٹرولڈ “ ملک کا اعزاز بخشا جبکہ پورے ایشیاءمیں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے جزام کی بیماری پر سب سے پہلے قابو پایا

وہ پاکستان میں لیپروسی سنٹرز بناتی چلی گئی کہ ان کی تعداد 156ہوگئی 1988ءمیں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پاکستانی شہریت دے دی گئی اور ان کی خدمات کی بناءپر انہیں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں ’ہلال پاکستان‘ ،’ ستاہ قائداعظم‘ ، ’ ہلال امتیاز‘ اور ’ جناح ایوارڈ‘ شامل ہیں آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ’ ڈاکٹر آف سائنس ‘ کا ایوارڈ بھی دیا گیا اورانہیں ’نشان قائداعظم ‘ کا اعزازبھی حاصل ہے

جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازا مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام اعزازات اور ایوارڈز ان کی بے پایاں خدمات کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں یہ عظیم عورت اس سے کہیں زیادہ ڈیزرو کرتی ہے

 ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا اپنی جوانی میں اپنے ملک اور خاندان کو چھوڑ کر پاکستان آنا او ر اپنی زندگی کا نصف سے بھی زیادہ عرصہ ایک ایسے ملک کے مریضوں کیلئے وقف کردینا جس کے نظریات و عقائد یہاں تک کے مذہب بھی اُن سے بالکل مختلف تھا او ر مریض بھی وہ جن کو انکے اپنے بھی تنہا چھوڑ گئے ، واقعی قابل رشک ہے

ایک انٹرویو میں جب اُن سے جرمنی واپسی کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا، ” اگر میں پاکستان سے جانا چاہتی تو بہت پہلے چلی جاتی‘ میں یہیں رہوں گی“

 اور اب یہ روشن ستارہ ہم سے رخصت ہو چکا ہے ان کی وفات ہم سب پاکستانیوں کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے

ہم پاکستانی کبھی بھی اُن کی بے لوث خدمات اور محبت کا قرض نہیں چکا سکتے

 خداوند کریم ان کے درجات بلند فرمائے! آمین

ازقلم: فزا ملک

ایم اے ماس کمیونیکیشن


 

No comments

Featured Post

Saat Rang Magazine march 2019

* SAAT RANG MAGAZINE * *January/February/March 2019* *Click here to Read Online* Or  *Download PDF file* Saat Rang Magazine...

Powered by Blogger.