Pages
▼
page
▼
Wednesday, September 27, 2017
Article
Article
June/July
Is rah ko kya naam doon
Written by Dar sadaf eman
Read online
Article by Dar sadaf eman
June/July
Is rah ko kya naam doon
Written by Dar sadaf eman
Read online
Article by Dar sadaf eman
Article
Article
June/July
Is rah ko kya naam doon
Written by Dar sadaf eman
Read online
Article by Dar sadaf eman
June/July
Is rah ko kya naam doon
Written by Dar sadaf eman
Read online
Article by Dar sadaf eman
Tuesday, September 26, 2017
Monday, September 18, 2017
Article
" جوائنٹ فیملی سسٹم "
از:ثانیہ ارباب شہزاد احمد:
جوائنٹ فیملی ہمارے برصغیر میں عظیم اور مقدم روایات رہی ہے۔ جب کے ابھی بھی یہ روایات دیہی علاقوں میں برقرار رکھنا اور اپنانا ،خاندان کے بوڑھے، خاندان کی عزت اور اچھا خاندان ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھتے ہیں ۔ خاندان کے بزرگ ایک ہی گھر کی چھت تلے رہتے ہوئے علیحدہ علیحدہ رہنا خاندان کی انا اور توہین سمجھتے ہیں ۔ خاندان کے بزرگ کا یہ تصور اور سوچ ہوتی ہے کہ ایک گھر کی دہلیز میں داخل ہوتے ہی اگر تین یا چار چولہے جل رہے ہوں گئے۔ تو باہر سے گلی محلے سے آنے والا کس کے چولہے پہ جا کر بیٹھے گا۔ باہر سے گھر میں آنے والے سفیر کہے گئے ۔اس خاندان کے وڈیرے نے اپنے اولاد میں سلوک پیدا ہی نہیں کیا ۔اس خاندان میں بھائی بھائی میں اتفاق نہیں تو بستی میں لوگوں سے اس کا لین دین میں بھی بے اتفاقی ہو گئی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ خاندان والوں کی سوچ ہوتی ہے کہ اگر جوائنٹ فمیلی نہیں ہو گئی تو خاندان کا معاشرے میں امیج خراب ہو گا۔ جس خاندان میں اکیلے اکیلے رہنے کا رواج ہو ۔ ایسے خاندان کو معاشرے میں اخلاقی اور ادبی لحاظ سے کم تر تصور کیا جاتا۔ جبکہ جوائنٹ فیملی میں رہنے کے بے حد فائدہ ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں ۔اس کے مترداف جوائنٹ فمیلی میں رہنے کے بعد آپس میں بہت لڑی جھگڑے بھی ہوتے ہیں ۔میرے خیال میں ”انسان جتنا ایک دوسرے سے دور رہتا ہے اتنی محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے “۔ ”ایک ہی جگہ رہتے ہوئے قدم قدم پہ بات بات پہ اونچ نیچ سے انسان کے دل میں نفرت' حسد 'غرور پیدا ہوتا ہے“۔فلاں نے اُس ٹائم یا بات کی فلاں نے اُس ٹائم زیادتی کی ۔فلاں کو میرے سے زیادہ چیز ملی ۔جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے خاندان میں ایک دوسرے کے خلاف کان بھرے جاتے ہیں۔ فائدہ اور نقصان کی بات ایک طرف ۔ رہی بات رائے کی جوائنٹ فیملی سہی ہے یا نہیں ۔ جب یا رسم وروایات برصغیر میں تب کی ہے جب کبھی سکھ اور بت پرستوں کی تعداد زیادہ اور مسلمان کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔جو کہ آج بھی اسلام کے آنے کے 1400 سال بعد تک اور پاکستان کا وجود میں آنے کے 70 سال بعد تک بھی یا روایات کچھ دیہی علاقوں میں برقرار ہے۔ جبکہ پاکستان کا وجود اس بنیاد پہ رکھا کیا تھا کہ ہمیں اپنی بےقاعدہ عبادت کو وجود میں لا سکے ۔لفظ ”لاالہ الا محمد رسول “پہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ دنیا میں دوسرے نمبر پہ اسلام کے نام پہ نمودار ہونے والی ریاست”اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے“ سب سے پہلے وجود میں آنے والی ریاست سعودیہ کے شہر میں مدینہ منورہ تھی جو اللہ پاک کے حکم پہ نبوت کے 10 سال بعد نبی پاک اور صحابہ اکرم نے بنیاد رکھی تھی ۔ پاکستان اور مدینہ منورہ دونوں ریاستوں کی بنیاد جبکہ ایک ہی مقصد پہ رکھی گئی تھی۔ اگر اب ہم دیکھے تو پاکستان کی بنیاد جس چیز پہ رکھی گئی تھی اس مقصد سے پاکستانی قوم بلکل ہٹ گئی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے پاکستان کی بنیاد رکھی اسلام کے نام پہ گئی تھی پر بد قسمتی کی وجہ سے پاکستانیوں نے بلکل اس کے مترداف کیا ۔وہ اسلام کی پیروی کی جگہ یورپ کو اپنا کلیچر سمجھنے لگے ۔ اور ہمارے آباؤاجداد نے اپنا مذہب تو بدل لیا اور اسلام کے نام پہ زمین کی ایک خطہ بھی طالب کر لیا پر ابھی ہمارے رگیوں میں بت پرستی اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب کے ہمارے اسلام یعنی اللہ پاک اور نبی کریم کے حکم کے مطابق جوائنٹ فیملی بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔عرب میں جوائنٹ فیملی کا تصویر ہی بہت غلط تصور کیا جاتا ۔اگر جوائنٹ فیملی ہو بھی تو اللہ پاک اور نبی کے حکم کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ بات بہت لمبائی ہوتی جا رہی ہے میں کچھ دلیل دیتے ہوئے اپنی بات کو مختصر کرتی ہوں ۔ سالی اور بھابھی سے جاہل لوگ مزاق کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں یا سخت حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ دیور اور جیٹھ اور بہنوئی غیر محرم رشتے ہیں ان کا گھر میں آنا جانا ہو تو عورت کو سخت پردے کا حکم ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تین ایسے آدمی ہیں جن پہ اللہﷻ نے جنت کو حرام کر دیا“ ١:دائمی شرابی ٢:والدین کا نافرمان ٣:دیوث(جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے) مسند احمد بن حنبل 5372 دیوث کی تعریف میں ایسے بھائی ،باپ اور خاوند شامل ہیں جو اپنی بہن ،بیوی و بیٹی کو نیم عریاں فیش زد لباس پہنا کر بازاوں اور محفلوں کی زینت بناتے ہیں۔ایک دوسری حدیث کا مہفوم ہے کہ دیوث کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے گھر کی عورتوں سے کون لوگ مل رہے ہیں اور کس طرح کے ماحول میں ان کا آنا جانا ہے۔ ایک حدیث نبی ہے اس کا مفہوم کچھ ایسے ہیں ۔ نبی پاک ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ : ”دیور سے بچو یہ موت(آگ) ہے“ قرآن پاک سورت احزاب میں اللہ پاک فرماتا ہے: ”اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرو “ اگر گھر میں ہی سب غیر محرم رشتے موجود ہو تو پھر عورتوں کے صرف اس پردے کا کیا فائدہ جو باہر چند غیر مردوں سے پردہ کیا جائے۔ اور رہی بات عورتیں کے پردے کی سب فکر کرتے ہیں۔سب سوال کرتے ہیں عورتیں کا پردہ کیسا ہونا چاہیے؟ کیا کوئی جانتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں مردوں کے پردے کا بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں سورۃ النور میں فرماتا ہے۔ آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ اپنے نگاہیں نیچی رکھا کرے۔ مردوں کا پردہ نگاہوں کی حفاظت کرنا ہے یعنی غیر محرم عورت سامنے آئے تو اپنی نظروں کو جھکا لے۔ بنت شہزاد احمد
Article
" جوائنٹ فیملی سسٹم "
از:ثانیہ ارباب شہزاد احمد:
جوائنٹ فیملی ہمارے برصغیر میں عظیم اور مقدم روایات رہی ہے۔ جب کے ابھی بھی یہ روایات دیہی علاقوں میں برقرار رکھنا اور اپنانا ،خاندان کے بوڑھے، خاندان کی عزت اور اچھا خاندان ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھتے ہیں ۔ خاندان کے بزرگ ایک ہی گھر کی چھت تلے رہتے ہوئے علیحدہ علیحدہ رہنا خاندان کی انا اور توہین سمجھتے ہیں ۔ خاندان کے بزرگ کا یہ تصور اور سوچ ہوتی ہے کہ ایک گھر کی دہلیز میں داخل ہوتے ہی اگر تین یا چار چولہے جل رہے ہوں گئے۔ تو باہر سے گلی محلے سے آنے والا کس کے چولہے پہ جا کر بیٹھے گا۔ باہر سے گھر میں آنے والے سفیر کہے گئے ۔اس خاندان کے وڈیرے نے اپنے اولاد میں سلوک پیدا ہی نہیں کیا ۔اس خاندان میں بھائی بھائی میں اتفاق نہیں تو بستی میں لوگوں سے اس کا لین دین میں بھی بے اتفاقی ہو گئی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ خاندان والوں کی سوچ ہوتی ہے کہ اگر جوائنٹ فمیلی نہیں ہو گئی تو خاندان کا معاشرے میں امیج خراب ہو گا۔ جس خاندان میں اکیلے اکیلے رہنے کا رواج ہو ۔ ایسے خاندان کو معاشرے میں اخلاقی اور ادبی لحاظ سے کم تر تصور کیا جاتا۔ جبکہ جوائنٹ فیملی میں رہنے کے بے حد فائدہ ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں ۔اس کے مترداف جوائنٹ فمیلی میں رہنے کے بعد آپس میں بہت لڑی جھگڑے بھی ہوتے ہیں ۔میرے خیال میں ”انسان جتنا ایک دوسرے سے دور رہتا ہے اتنی محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے “۔ ”ایک ہی جگہ رہتے ہوئے قدم قدم پہ بات بات پہ اونچ نیچ سے انسان کے دل میں نفرت' حسد 'غرور پیدا ہوتا ہے“۔فلاں نے اُس ٹائم یا بات کی فلاں نے اُس ٹائم زیادتی کی ۔فلاں کو میرے سے زیادہ چیز ملی ۔جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے خاندان میں ایک دوسرے کے خلاف کان بھرے جاتے ہیں۔ فائدہ اور نقصان کی بات ایک طرف ۔ رہی بات رائے کی جوائنٹ فیملی سہی ہے یا نہیں ۔ جب یا رسم وروایات برصغیر میں تب کی ہے جب کبھی سکھ اور بت پرستوں کی تعداد زیادہ اور مسلمان کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔جو کہ آج بھی اسلام کے آنے کے 1400 سال بعد تک اور پاکستان کا وجود میں آنے کے 70 سال بعد تک بھی یا روایات کچھ دیہی علاقوں میں برقرار ہے۔ جبکہ پاکستان کا وجود اس بنیاد پہ رکھا کیا تھا کہ ہمیں اپنی بےقاعدہ عبادت کو وجود میں لا سکے ۔لفظ ”لاالہ الا محمد رسول “پہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ دنیا میں دوسرے نمبر پہ اسلام کے نام پہ نمودار ہونے والی ریاست”اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے“ سب سے پہلے وجود میں آنے والی ریاست سعودیہ کے شہر میں مدینہ منورہ تھی جو اللہ پاک کے حکم پہ نبوت کے 10 سال بعد نبی پاک اور صحابہ اکرم نے بنیاد رکھی تھی ۔ پاکستان اور مدینہ منورہ دونوں ریاستوں کی بنیاد جبکہ ایک ہی مقصد پہ رکھی گئی تھی۔ اگر اب ہم دیکھے تو پاکستان کی بنیاد جس چیز پہ رکھی گئی تھی اس مقصد سے پاکستانی قوم بلکل ہٹ گئی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے پاکستان کی بنیاد رکھی اسلام کے نام پہ گئی تھی پر بد قسمتی کی وجہ سے پاکستانیوں نے بلکل اس کے مترداف کیا ۔وہ اسلام کی پیروی کی جگہ یورپ کو اپنا کلیچر سمجھنے لگے ۔ اور ہمارے آباؤاجداد نے اپنا مذہب تو بدل لیا اور اسلام کے نام پہ زمین کی ایک خطہ بھی طالب کر لیا پر ابھی ہمارے رگیوں میں بت پرستی اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب کے ہمارے اسلام یعنی اللہ پاک اور نبی کریم کے حکم کے مطابق جوائنٹ فیملی بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔عرب میں جوائنٹ فیملی کا تصویر ہی بہت غلط تصور کیا جاتا ۔اگر جوائنٹ فیملی ہو بھی تو اللہ پاک اور نبی کے حکم کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ بات بہت لمبائی ہوتی جا رہی ہے میں کچھ دلیل دیتے ہوئے اپنی بات کو مختصر کرتی ہوں ۔ سالی اور بھابھی سے جاہل لوگ مزاق کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں یا سخت حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ دیور اور جیٹھ اور بہنوئی غیر محرم رشتے ہیں ان کا گھر میں آنا جانا ہو تو عورت کو سخت پردے کا حکم ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تین ایسے آدمی ہیں جن پہ اللہﷻ نے جنت کو حرام کر دیا“ ١:دائمی شرابی ٢:والدین کا نافرمان ٣:دیوث(جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے) مسند احمد بن حنبل 5372 دیوث کی تعریف میں ایسے بھائی ،باپ اور خاوند شامل ہیں جو اپنی بہن ،بیوی و بیٹی کو نیم عریاں فیش زد لباس پہنا کر بازاوں اور محفلوں کی زینت بناتے ہیں۔ایک دوسری حدیث کا مہفوم ہے کہ دیوث کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے گھر کی عورتوں سے کون لوگ مل رہے ہیں اور کس طرح کے ماحول میں ان کا آنا جانا ہے۔ ایک حدیث نبی ہے اس کا مفہوم کچھ ایسے ہیں ۔ نبی پاک ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ : ”دیور سے بچو یہ موت(آگ) ہے“ قرآن پاک سورت احزاب میں اللہ پاک فرماتا ہے: ”اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرو “ اگر گھر میں ہی سب غیر محرم رشتے موجود ہو تو پھر عورتوں کے صرف اس پردے کا کیا فائدہ جو باہر چند غیر مردوں سے پردہ کیا جائے۔ اور رہی بات عورتیں کے پردے کی سب فکر کرتے ہیں۔سب سوال کرتے ہیں عورتیں کا پردہ کیسا ہونا چاہیے؟ کیا کوئی جانتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں مردوں کے پردے کا بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں سورۃ النور میں فرماتا ہے۔ آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ اپنے نگاہیں نیچی رکھا کرے۔ مردوں کا پردہ نگاہوں کی حفاظت کرنا ہے یعنی غیر محرم عورت سامنے آئے تو اپنی نظروں کو جھکا لے۔ بنت شہزاد احمد
Saturday, September 16, 2017
Saat Rang digest
SAAT RANG DIGEST
September 2017
Saat Rang Digest
OR
Read Online
First Edition of SAAT RANG DIGEST September 2017 is now available to read online or download .
Saat rang Digest is a new digest & contains stories from male & female writers.Its Management includes Elina Malik ,Kehkashan Sabir , Adeela Saleem....Saat Rang Magazine is composed by dedicated team & It has color full pages which Attract users attention, hope that this magazine will be a nice addition to digest word.
Disclaimer:-
No Other website is allowed to upload Saat Rang Magazine,a copyright claim is already launched with a list of authorized websites, non compliance with this may harm any website ranking and penalty from Google or both.
Saat Rang digest
SAAT RANG DIGEST
September 2017
Saat Rang Digest
OR
Read Online
First Edition of SAAT RANG DIGEST September 2017 is now available to read online or download .
Saat rang Digest is a new digest & contains stories from male & female writers.Its Management includes Elina Malik ,Kehkashan Sabir , Adeela Saleem....Saat
Rang Magazine is composed by dedicated team & It has color full
pages which Attract users attention, hope that this magazine will be a
nice addition to digest word.
Disclaimer:-
No Other website is allowed to upload Saat Rang Magazine,a copyright claim is already launched with a list of authorized websites, non compliance with this may harm any website ranking and penalty from Google or both.
Wednesday, September 13, 2017
Article
تحریر:فزا ملک:
پاکستانی تاریخ میں بہت سی ایسی شاندار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے خدمت انسانی کے جذبے کے تحت اپنی ساری زندگی گزار دی
ڈاکٹر روتھ فاﺅ اُن ہی میں سے ایک ہیں اور پاکستان کیلئے اپنی قابل رشک خدمات کی بدولت وہ پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں
ڈاکٹر روتھ فاﺅ بنیادی طورایک جرمن خاتون تھیں وہ 1960ءکی دہائی میں پاکستان ایک” ایجوکیشنل کیتھولک کونگریشن“ کے سلسلے میں آئیں اُن کا دوسرا پڑاﺅ بھارت تھا لیکن پھر وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں اور اپنی زندگی کے 55سال پاکستان میں جذام کی بیماری کو ختم کرنے کے لئے قربان کردیئے اگر آپ گوگل پر” Leprocy in Pakistan“لکھ کر سرچ کریں تو ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا نام ہی آپ کی کمپیوٹر سکرین پراُبھرے گا
جزام کو دوسرے الفاظ میں’ کوڑھ ‘کہا جاتا ہے جو عام طور پر چوہے کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور جس میں مریض کے ہاتھ پیر مکمل طور پر ادھ مرے اور بے حس ہو جاتے ہیں
ٍڈاکٹر روتھ فاﺅ ایک ایسی رحمدل اور صوفیانہ صفت عورت کا نام ہے جس نے پاکستان میں اُس وقت جزام کے مریضوں کی خدمت اور علاج کا بیڑا اُٹھایا جب اسے لوگ بیماری نہیں بلکہ سرکردہ گناہوں کی سزا سمجھتے تھے اور ان ہی گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے انہیں خاندان سے دور ویرانوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا ، اُن کے لئے پہلا چیلنج اس فرسودہ تصور کا خاتمہ تھااور اس بیماری کو بیماری ثابت کرنے کیلئے ڈاکٹر روتھ کو بہت وقت لگا
انہوں نے کراچی کے ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر ، جو جزام کے مریضوں کا ٹھکانہ تھا وہاں اپنا ہیلتھ کیمپ لگایا
یہ فرشتہ صفت عورت خود اپنے ہاتھوں سے اُن کوڑھ کے مریضوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں جن کو اُن کے اپنے تنہا چھوڑ گئے تھے
ڈاکٹر روتھ کا کیمپ پہلے کلینک اور پھر باقاعدہ طور پر 1963ءمیں ایک ہسپتال کی صورت اختیار کرگیا جس کا نام ” میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر“ رکھا گیا اور آج تک اس ہسپتال میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ایک ہزار پیرا میڈیکل ورکرز کو ٹریننگ بھی دی گئی تاکہ ان کے بعد بھی جزام کے مریضوں کا علاج ہو سکے
اپنے اس مشن کے آغاز میں ہی ڈاکٹر روتھ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ صرف وہ لوگ ہی ان کے سنٹر میں علاج کے لئے آسکیں گے جنہیں سنٹر قریب پڑتا ہو چنانچہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان تمام متاثرہ اور دوردرازعلاقوں کا سفر شروع کیا جہاں جزام کے مریض تھے اور ان کی بر وقت طبی امداد کو یقینی بنایا
اوریہ ان کی انتھک محنت ہی تھی جو سال 1996ء میں ” ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ نے پاکستا ن کو ” لیپروسی کنٹرولڈ “ ملک کا اعزاز بخشا جبکہ پورے ایشیاءمیں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے جزام کی بیماری پر سب سے پہلے قابو پایا
وہ پاکستان میں لیپروسی سنٹرز بناتی چلی گئی کہ ان کی تعداد 156ہوگئی 1988ءمیں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پاکستانی شہریت دے دی گئی اور ان کی خدمات کی بناءپر انہیں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں ’ہلال پاکستان‘ ،’ ستاہ قائداعظم‘ ، ’ ہلال امتیاز‘ اور ’ جناح ایوارڈ‘ شامل ہیں آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ’ ڈاکٹر آف سائنس ‘ کا ایوارڈ بھی دیا گیا اورانہیں ’نشان قائداعظم ‘ کا اعزازبھی حاصل ہے
جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازا مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام اعزازات اور ایوارڈز ان کی بے پایاں خدمات کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں یہ عظیم عورت اس سے کہیں زیادہ ڈیزرو کرتی ہے
ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا اپنی جوانی میں اپنے ملک اور خاندان کو چھوڑ کر پاکستان آنا او ر اپنی زندگی کا نصف سے بھی زیادہ عرصہ ایک ایسے ملک کے مریضوں کیلئے وقف کردینا جس کے نظریات و عقائد یہاں تک کے مذہب بھی اُن سے بالکل مختلف تھا او ر مریض بھی وہ جن کو انکے اپنے بھی تنہا چھوڑ گئے ، واقعی قابل رشک ہے
ایک انٹرویو میں جب اُن سے جرمنی واپسی کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا، ” اگر میں پاکستان سے جانا چاہتی تو بہت پہلے چلی جاتی‘ میں یہیں رہوں گی“
اور اب یہ روشن ستارہ ہم سے رخصت ہو چکا ہے ان کی وفات ہم سب پاکستانیوں کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے
ہم پاکستانی کبھی بھی اُن کی بے لوث خدمات اور محبت کا قرض نہیں چکا سکتے
خداوند کریم ان کے درجات بلند فرمائے! آمین
ازقلم: فزا ملک
ایم اے ماس کمیونیکیشن
Article
تحریر:فزا ملک:
پاکستانی تاریخ میں بہت سی ایسی شاندار شخصیات گزری ہیں جنہوں نے خدمت انسانی کے جذبے کے تحت اپنی ساری زندگی گزار دی
ڈاکٹر روتھ فاﺅ اُن ہی میں سے ایک ہیں اور پاکستان کیلئے اپنی قابل رشک خدمات کی بدولت وہ پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں
ڈاکٹر روتھ فاﺅ بنیادی طورایک جرمن خاتون تھیں وہ 1960ءکی دہائی میں پاکستان ایک” ایجوکیشنل کیتھولک کونگریشن“ کے سلسلے میں آئیں اُن کا دوسرا پڑاﺅ بھارت تھا لیکن پھر وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں اور اپنی زندگی کے 55سال پاکستان میں جذام کی بیماری کو ختم کرنے کے لئے قربان کردیئے اگر آپ گوگل پر” Leprocy in Pakistan“لکھ کر سرچ کریں تو ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا نام ہی آپ کی کمپیوٹر سکرین پراُبھرے گا
جزام کو دوسرے الفاظ میں’ کوڑھ ‘کہا جاتا ہے جو عام طور پر چوہے کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور جس میں مریض کے ہاتھ پیر مکمل طور پر ادھ مرے اور بے حس ہو جاتے ہیں
ٍڈاکٹر روتھ فاﺅ ایک ایسی رحمدل اور صوفیانہ صفت عورت کا نام ہے جس نے پاکستان میں اُس وقت جزام کے مریضوں کی خدمت اور علاج کا بیڑا اُٹھایا جب اسے لوگ بیماری نہیں بلکہ سرکردہ گناہوں کی سزا سمجھتے تھے اور ان ہی گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے انہیں خاندان سے دور ویرانوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا ، اُن کے لئے پہلا چیلنج اس فرسودہ تصور کا خاتمہ تھااور اس بیماری کو بیماری ثابت کرنے کیلئے ڈاکٹر روتھ کو بہت وقت لگا
انہوں نے کراچی کے ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر ، جو جزام کے مریضوں کا ٹھکانہ تھا وہاں اپنا ہیلتھ کیمپ لگایا
یہ فرشتہ صفت عورت خود اپنے ہاتھوں سے اُن کوڑھ کے مریضوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں جن کو اُن کے اپنے تنہا چھوڑ گئے تھے
ڈاکٹر روتھ کا کیمپ پہلے کلینک اور پھر باقاعدہ طور پر 1963ءمیں ایک ہسپتال کی صورت اختیار کرگیا جس کا نام ” میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر“ رکھا گیا اور آج تک اس ہسپتال میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ایک ہزار پیرا میڈیکل ورکرز کو ٹریننگ بھی دی گئی تاکہ ان کے بعد بھی جزام کے مریضوں کا علاج ہو سکے
اپنے اس مشن کے آغاز میں ہی ڈاکٹر روتھ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ صرف وہ لوگ ہی ان کے سنٹر میں علاج کے لئے آسکیں گے جنہیں سنٹر قریب پڑتا ہو چنانچہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ان تمام متاثرہ اور دوردرازعلاقوں کا سفر شروع کیا جہاں جزام کے مریض تھے اور ان کی بر وقت طبی امداد کو یقینی بنایا
اوریہ ان کی انتھک محنت ہی تھی جو سال 1996ء میں ” ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ نے پاکستا ن کو ” لیپروسی کنٹرولڈ “ ملک کا اعزاز بخشا جبکہ پورے ایشیاءمیں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے جزام کی بیماری پر سب سے پہلے قابو پایا
وہ پاکستان میں لیپروسی سنٹرز بناتی چلی گئی کہ ان کی تعداد 156ہوگئی 1988ءمیں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پاکستانی شہریت دے دی گئی اور ان کی خدمات کی بناءپر انہیں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں ’ہلال پاکستان‘ ،’ ستاہ قائداعظم‘ ، ’ ہلال امتیاز‘ اور ’ جناح ایوارڈ‘ شامل ہیں آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ’ ڈاکٹر آف سائنس ‘ کا ایوارڈ بھی دیا گیا اورانہیں ’نشان قائداعظم ‘ کا اعزازبھی حاصل ہے
جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازا مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام اعزازات اور ایوارڈز ان کی بے پایاں خدمات کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں یہ عظیم عورت اس سے کہیں زیادہ ڈیزرو کرتی ہے
ڈاکٹر روتھ فاﺅ کا اپنی جوانی میں اپنے ملک اور خاندان کو چھوڑ کر پاکستان آنا او ر اپنی زندگی کا نصف سے بھی زیادہ عرصہ ایک ایسے ملک کے مریضوں کیلئے وقف کردینا جس کے نظریات و عقائد یہاں تک کے مذہب بھی اُن سے بالکل مختلف تھا او ر مریض بھی وہ جن کو انکے اپنے بھی تنہا چھوڑ گئے ، واقعی قابل رشک ہے
ایک انٹرویو میں جب اُن سے جرمنی واپسی کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا، ” اگر میں پاکستان سے جانا چاہتی تو بہت پہلے چلی جاتی‘ میں یہیں رہوں گی“
اور اب یہ روشن ستارہ ہم سے رخصت ہو چکا ہے ان کی وفات ہم سب پاکستانیوں کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے
ہم پاکستانی کبھی بھی اُن کی بے لوث خدمات اور محبت کا قرض نہیں چکا سکتے
خداوند کریم ان کے درجات بلند فرمائے! آمین
ازقلم: فزا ملک
ایم اے ماس کمیونیکیشن
Sunday, September 10, 2017
Article
اٹھو ابھی کہ پھر وقت رہے نہ رہے ۔۔۔
تحریر:راحیلہ بنت مہر علی شاہ :
اللہ تعالٰی نے جب انسان کو پیدا کیا سب سے پہلے یعنی آدم و حوا کو تو ساتھ میں ان کو کچھ حدود و قیود کا بھی پابند بنادیا.......لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں اگئے اور وہ حدود توڑ دئے جو اللہ نے بنائے تھے....
اور وہ عرش سے فرش پر آگئے .....یہی پہ ان کی اولاد ہوئی اور یہی پہ جی ہاں یہی اسی دھرتی پہ حدود و قیود سے انسان مکمل طور پر نکل گیا ......اور پھر!!!!!
اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں بلکہ چل نکلا پھیلتا گیا بڑھتا گیا......پھر انسان وہ حدود قید تصور کرنے لگے .....ان کو بیڑیاں تصور کرنے لگے....وہ ان قیود سے نکل گیا......باہر نکل کر ازاد پرندے کی طرح پر پھیلائے....پھڑپھڑائے........سر
شاری محسوس کی خوشی محسوس کی پھر اڑا .....فضا کے سینے کو چیر کر ہوا کو چھوم کر بادلوں کو چھو کر بہت اونچا ...بہت اونچا پھر انہیں زمین پر رہنے والے لوگ کیڑےلگے.کمتر لگے ...ان کے دل کچھ اور محسوس کرنے لگے......وہ خود کو طاقت ور بہت طاقتور محسوس کرنے لگے.......گردن میں کلف سی لگی ......محسوس ہونے لگی ....تکبر سے سینے پھیلے پھیلے سے محسوس ہوئے..........صدیوں پرانے قصے ..کہانیاں پھر سے جنم لینے کیلئے پرتولنے لگے......طاقت کے مظاہرے پہلے بھی کئے گئے تھے....خدا کو صدیوں پہلے بھی للکارا گیا تھا......لیکن ہوا کیا.....اللہ رحیم ہے غفور ہے کریم ہے ......تو ان کا ایک اور نام بھی ہے ہاں وہ قہار بھی ہے......وہ کن کہتا ہے.....اور نمرود ایک چھوٹے سے مچھر سے نیست و نابود ہوتا ہے ....وہ کن کہتا ہے ....خود کو سپرپاور سمجھنے والا فرغون پانی کے لہروں کا شکار ہوکر تادنیا عبرت کا نشانہ بن جاتا ہے....وہ کن کہتا ہے ....اور امریکاکا وارلڈ ٹریٹ سنٹر لمحوں میں زمین بوس ہوجاتا ہے....جنہوں نے دعوی ٰ کیا تھا.....یہ سنٹر آگ کا مقابلہ کرسکتا ہے .....زلزلے کا مقابلہ سکتا ہے....اندھی طوفانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے.....لیکن وہ یہ بھول گئے تھے ..کہ ہر قسم کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے والا کیا خدا کا مقابلہ بھی کرسکتا ہے؟ نہیں اور اللہ نے لمحوں میں یہ ثابت کردیا...جو کام انہوں نے سالوں میں کیا اللہ نے لمحوں میں اسے زمین بوس کردیا. ظلم کرنے والوں !! ...سارے کائنات کا نظام چلانے والا اوپر بیٹھا ہے .....تمہیں پیدا کرنے والا پوری دنیا کا تخلیق کار کائنات کا بادشاہ اللہ ابھی موجود ہے....وہ کن کہتا ہے اور اس نے کن کہا اور ورالڈ ٹریٹ سنٹر نہ رہا...اللہ کو غرور پسند نہیں...اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اللہ نے ظالموں کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے... حدیث شریف کا مفہوم ہے .....حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں ..کہ اپؐ نے فرمایا لوگوں میں سب سے اچھی زندگی اس ادمی کی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہو اس کی پیٹھ پر سوار ہوکر اڑتا ہےجب بھی کوئی لڑائی یا گھبراہٹ کی اواز سنتا ہے .تو فورا اس پر اڑ کر وہاں پہنچتا ہے ,قتل ہوجانے یا موت کے متوقع مقامات کو تلاش کرتا ہے..یا وہ آدمی جو تھوڑی سی بکریوں کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں اقامت گزیں ہو.وہاں نماز قائم کرتا ہو زکوٰة ادا کرتا ہو اور اپنے رب کی عبادت کرتا ہو حتٰی کہ اسے موت آجائے وہ لوگوں سے اچھی حالت میں ہے.(مسلم)....اور ہم کیا کررہے ہیں !!!!خود کو مسلمان سمجھتے ہیں ...اچھا سمجھتے ہیں ......اور ہمارے سامنے ہمارے نظروں کے سامنے ہمارے مسلمان بھائی بہنوں.اور بچوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہورہا ہے....روح کو چھلنی کرنے والے مناظر ہم بڑے آرام سے دیکھ رہے ہیں ....ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں.برما کے مسلمان جل رہے ہیں خون میں نہارہے ہیں کس جرم کی پاداش میں!!!!!اس جرم کی پاداش میں کہ وہ مسلم ہیں اللہ کو ایک ماننے والے ہیں...اس جرم کی سزا پارہے ہیں ہمارے بھائی بہنیں اور ہمارے بچے...اورہم کو زرا بھی فرق نہیں پڑرہا ہم کھا رہے ہیں سو رہے ہیں آرام کررہے ہیں اور اس کے باوجود.......ہمیں جنت کی آس بھی ہے ... اور ہم دوزخ کو بجھا بھی نہیں رہے ........خود کو مسلمان سمجھنے والوں اٹھو ....جاگو ....ظلم کو روکو ...جس طرح بھی ہو ...جہاد کرو ...خود کو مسلمان ثابت کرو ......اٹھو اور ظلم کو روکو...یاد رکھو اج یہ تو کل خدانخواستہ ہم پر بھی یہ وقت آسکتا ہے ...کیونکہ دشمن اسلام کی نظروں میں تو ہم بھی کھٹک رہے ہیں....پلان ہمارے لئے بھی بن رہے ہیں تو کیا انہیں کامیاب ہونے دئیں!!!!نہیں انہیں جواب دینا ہوگا ...اپنے مزہب کو بچانا ہوگا ...ہر حال میں...خدا راہ اٹھو جاگو .... ... ...راحیلہ بنت مہرعلی شاہ...گاوں آماخیل ضلع ٹانک......